پسِ زخم ہائے دل و جگر تو نسیم بھی ہے، صبا بھی ہے
مری آہ سرد کی زد میں اب کوئی کوئی داغ ہرا بھی ہے
تری برہمی بھی روا سہی، مرا یہ سوال بھی ہے بجا
کہ فسانہ جو مرے نام ہے وہ فسانہ تو نے سنا بھی ہے
مری سمت آپ نہ دیکھیے، مگر اتنا غور سے سوچیے
کہ قصور جس کی سزا ہے یہ وہ قصور مجھ سے ہوا بھی ہے
یہ فریبِ ناز و نیاز ہے کہ ادائے جذب و گریز ہے
مرے جرمِ جُراَتِ شوق پر وہ خفا نہیں ہے، خفا بھی ہے
جسے لگ سکی نہ مری نظر، اسے کہیے رنگِ حیا مگر
ترے رخ پہ آنے سے پیشتر، کوئی ایک رنگ اڑا بھی ہے
بھلا ان پہ ہوگا کوئی اثر، میں مریض ہو کے کہوں اگر
جسے درد سمجھے ہیں چارہ گر، وہی درد میری دوا بھی ہے
مجھے ان سے جور و جفا کا کیا کسی قسم کا بھی گِلَہ نہیں
مگر ان کو اس کا گِلَہ نہ ہو تو یہ بات وجہِ گِلَہ بھی ہے
بکمالِ ہوش و خرد، خدا مجھے ذوق و شوقِ جنوں بھی دے
مرے پاس پائے طلب بھی ہے، مرے پاس دستِ دُعا بھی ہے
مرے دل کے ریزے تو آنسوؤں میں نظر نواز ہوئے مگر
کوئی گوشِ دل سے سنے اگر تو شکستہ دل کی صدا بھی ہے
مرا حال اس نے زبوں کیا، مرے دل پہ ظلم جو یوں کیا
اسے چُور چُور بھی کردیا، پھر اسی میں آکے بسا بھی ہے
ہے بہ یادِ لذّتِ آرزو، زہے ضبطِ عشقِ سکوت خو
کہ ہنوز اخگرؔ قبلہ رُو، ترے لب پہ حَرفِ دُعا بھی ہے
٭
No comments:
Post a Comment