جب دنیا سے ہم اُٹھ جائیں ممکن ہے پھر یاد نہ آئیں
مل کے جو سارے لوگ اُٹھائیں ناز تمہارے ہم سے زیادہ
پہلے بھی منسوب نہیں تھی کوئی مُسرّت ہم سے زیادہ
اب تو مگر ہلکی سی خوشی بھی دل پہ گراں ہے غم سے زیادہ
کوئی غریقِ نورِ شعاعِ مہر نہیں شبنم سے زیادہ
قطرۂ شبنم کاسۂ گل میں بادۂ جامِ جم سے زیادہ
جب دنیا سے ہم اُٹھ جائیں ممکن ہے پھر یاد نہ آئیں
مل کے جو سارے لوگ اُٹھائیں ناز تمہارے ہم سے زیادہ
حسبِ تمنّا ہم نے خود ہی جو چاہا پیغام لیا ہے
اس کی نظر کا کوئی اشارہ تھا ہی نہیں مُبہم سے زیادہ
گریۂ شادی عارض گلگوں کی رونق بھی بن سکتا ہے
شعلۂ گل بھی ہوسکتا ہے گرِ یہ کناں شبنم سے زیادہ
نشتر رکھو مرہم کہہ کر زخمی کو اب ہوش کہاں ہے
کوئی شغف تم کو بھی نہیں ہے چارہ گر ومرہم سے زیادہ
عکسِ مزاجِ گیسوئے برہم آنہ سکا آئینے میں بھی
محرمِ رازِ گیسوئے برہم کوئی نہیں ہے ہم سے زیادہ
عہدِ وفا کے بعد بھی عزمِ ترک وفا تک آپہنچے ہیں
لیکن اخگرؔ اب خلشِ غم، دل پہ گراں ہے غم سے زیادہ
٭
No comments:
Post a Comment