سب نے اخگرؔ کی ہر غزل میں سُنی
وہ کہانی جو اَن کہی ہے ابھی
آہ دل سے نکل رہی ہے ابھِی
کوئی اُمّید رہ گئی ہے ابھی
دردِ دل رشکِ راحتِ جاں ہے
چوٹ گویا نئی نئی ہے ابھی
احتیاطاً باذنِ جرأتِ شوق
اس کی آنکھوں میں برہمی ہےابھی
لذّتِ ابتدائے غم تو نہیں
شدّتِ غم مگر وہی ہے ابھی
اس کو خوشبو نے گُدگُدایا ہے
اس قدر جو کلی ہنسی ہے ابھی
کیوں پشیماں ہیں آپ، ہم نے تو
دل کی روداد ہی کہی ہے ابھی
صلح جو تھا و ہ صلح خو تو نہ تھا
جو تھی ظالم کی خو، وہی ہے ابھی
سب نے اخگرؔ کی ہر غزل میں سُنی
وہ کہانی جو اَن کہی ہے ابھی
٭
No comments:
Post a Comment