تاب نہیں تو مہر کیا، ایک دیا بُجھا ہوا
مُجھ کو بجا کہا گیا، ایک دیا بُجھا ہوا
گُم تھی خیال میں سحر، ظلمتِ شب کا تھا سفر
صورتِ خضر ساتھ تھا، ایک دیا بُجھا ہوا
رُو برو آئینے کے میں خود کو جو دیکھنے گیا
اُس نے مُجھے دکھا دیا، ایک دیا بُجھا ہوا
یوں بھی ہوا کہ دفعتاً، سارے چَراغ جل اُٹھے
اور کہیں نہیں رہا، ایک دیا بُجھا ہوا
کتَبۂ قبر پر مِرا نام نہیں لکھا گیا
صرف بنادیا گیا، ایک دیا بُجھا ہوا
شعلہ نہیں سہی، مگر اخگرؔ آبرو ہوں میں
اور نہیں مری انا، ایک دیا بُجھا ہوا
٭
No comments:
Post a Comment