اُٹھ کے محفل سے سب گھر گئے
ہم، کہ بے گھر تھے، ہم رہ گئے
روبرو کم سے کم رہ گئے
آئینہ بن کے ہم رہ گئے
اپنے دل کی نہ پائی خبر
ہم لیے جامِ جم رہ گئے
میرے ارمان نکلے نہیں
ہوکے دل پر رقم رہ گئے
دل نے غم ان کا اپنا لیا
وقت کے سارے غم رہ گئے
اُٹھ کے محفل سے سب گھر گئے
ہم، کہ بے گھر تھے، ہم رہ گئے
سر تو اخگرؔ ہوئے مرحلے
زلف کے پیچ و خم رہ گئے
٭
No comments:
Post a Comment