نشّۂ مے منسوب ہے اخگرؔ، لطفِ نگاہِ ساقی سے
اور نگاہِ ساقی سے پیمانہ بھی، میخانہ بھی
شمع سے وابستہ ہے یقیناً اور کوئی افسانہ بھی
آگ میں اس کی جلنے کو جل جاتا ہے پروانہ بھی
ہوش و خرد سب اپنے ہی تھے اور دلِ دیوانہ بھی
اب ہے ہر بیگانہ اپنا، ہر اپنا بیگانہ بھی
غم نے ترے، میرے لہجے کو بخشا ہے وہ درد کہ میں
سوز و گداز سے بھر دیتا ہوں اوروں کا افسانہ بھی
یادِ الٰہی سے کچھ پہلے دل میں بسے تھے کتنے صنم
آج یہ کعبہ ہے کہ یہی تھا ماضی میں بت خانہ بھی
تجھ پہ حقیقت کھل جائے گی، نام نہ تیرا آئے گا
کاش کبھی تو میری زباں سے سن لے مرا افسانہ بھی
صبر و رضا کے طالب ہی نے مجھ کو عطا فرمائی ہے
جرأتِ استدلالِ تمنّا، فطرتِ بے تابانہ بھی
نشّۂ مے منسوب ہے اخگرؔ، لطفِ نگاہِ ساقی سے
اور نگاہِ ساقی سے پیمانہ بھی، میخانہ بھی
٭
No comments:
Post a Comment