پامال بعدِ مرگ بھی بالواسطہ ہوں میں
زیرِ قدم اب آپکے میرا مزار ہے
مجُھ کو تلاشِ نقشِ کف پائے یار ہے
میری جبینِ شوق بہت بے قرار ہے
اک اعترافِ شوق بصد اختصار ہے
اس کی نظر جو دل کی طرف بار بار ہے
ہر سُو فضا میں حُسن ترا جلوہ بار ہے
کتنی حسین میری شبِ انتظار ہے
درپیش بے بسی بھی ہے کسی بے کسی کے ساتھ
اپنا ہے وہ نہ دل پہ کوئی اختیار ہے
بدلا ہوا سا کچھ ہے مزاجِ صبا بھی آج
غنچوں میں تازگی نہ گُلوں پر نکھار ہے
عہدِ وفا نہ کرتے ہمیں اختیار تھا
ترکِ وفا تو جذبۂ بے اختیار ہے
پامال بعدِ مرگ بھی بالواسطہ ہوں میں
زیرِ قدم اب آپکے میرا مزار ہے
بامِ عروج پر ہے با اعزاز عاجزی
اخگرؔ جسے خُمارِ مئے انکسار ہے
٭
No comments:
Post a Comment