مآلِ کارِ جنوں اب عجیب عالم ہے
نہ انہماک ہے کوئی نہ فرصتِ غم ہے
مآلِ عشق کا ان کو بہت ہی کم غم ہے
یہ کم نہیں ہے کہ کم ہے مگر کم از کم ہے
شدید ہو کہ نہ ہو سیلِ اشک پیہم ہے
تمہارے غم سے مِرے دل کا ربط محکم ہے
جبینِ شوق نہیں، چشمِ آرزو نم ہے
کہ مجھ کو کوئی ندامت نہیں فقط غم ہے
مآلِ کارِ جنوں اب عجیب عالم ہے
نہ انہماک ہے کوئی نہ فرصتِ غم ہے
درندگی میں یہ اب آدمی کا عالم ہے
کہ اپنے کام سے فارغ حریفِ آدم ہے
ہر اِک پیالۂ گل رشکِ ساغرِ جم ہے
شُعاعِ مہر غریقِ شرابِ شبنم ہے
جُنوں کے بل پہ خرد نے دیا نشانِ بہشت
جنوں نہ ہو تو یہی زندگی جہنّم ہے
وہ کم سنی میں بھی اخگرؔ حسین تھا لیکن
اب اس کے حُسن کا عالم عجیب عالم ہے
٭
No comments:
Post a Comment