اخگرؔ غریقِ بیِم و رِجا ہو کے رہ گئے
وہ کرکے اک اشارۂ مُبہم چلے گئے
دل پر پئے جراحتِ پیہم چلے گئے
آرے نہیں تو نشترِ مرہم چلے گئے
آئینہ دارِ شعلہ و شبنم چلے گئے
ایوانِ دل کو چھوڑ کے سب غم چلے گئے
اُمّیدِ وصل ہے نہ کوئی کیفِ انتظار
جانے کہاں وہ شوق کے عالم چلے گئے
اِک پَل میں عمُر بھر کی ریاضت ہوئی تمام
وہ ہیں یہیں، تھے ہم بھی یہیں، ہم چلے گئے
ہم اُٹھ کے بزمِ ناز سے جائیں تو سُوئے دار
لیکن وہ کیا کریں گے اگر ہم چلے گئے
وہ انجمن ہے اب نہ کوئی میرِ انجمن
وہ انجمن سے ہوکے جو برہم چلے گئے
منزل قریب تر ہے یقیناً بہر قدم
یعنی نصیب ہوگی اگر ہم چلے گئے
اخگرؔ غریقِ بیِم و رِجا ہو کے رہ گئے
وہ کرکے اک اشارۂ مُبہم چلے گئے
٭
No comments:
Post a Comment