رہے جو دامنِ سرکارِ دو جہاںؐ اخگرؔ
تو سر پہ اور کوئی سائباں رہے نہ رہے
حیات، موت کا، راز نِہاں رہے نہ رہے
کہ درمیاں ہے جو پل درمیاں، رہے نہ رہے
ہمارے دیدہ و دل میں سماچکے جلوے
تو اب حجاب کوئی درمیاں ، رہے نہ رہے
اگر میں گریہ کناں ہوں تو مُسکرائیں آپ
کُچھ امتیازِ بہار و خزاں، رہے نہ رہے
ترے حضُور ہوئی مہُر بر لب گویا
تو اب دہن میں ہمارے زباں، رہے نہ رہے
تمہارے جذبۂ تعمیر کا بھرم تو کھُلے
کوئی مکان سلامت یہاں ، رہے نہ رہے
ہر ایک دل پہ حقیقت تری عیاں ہے ضرور
ہر ایک لب پہ مرِی داستاں ، رہے نہ رہے
رہے جو دامنِ سرکارِ دو جہاںؐ اخگرؔ
تو سر پہ اور کوئی سائباں رہے نہ رہے
٭
No comments:
Post a Comment