موسم کا تقاضا ہے کہ کوئی اندازِ جنوں دکھلاؤں مگر
مجُھ کو تو ابھی مفہومِ جنوں سمجھانا تک نہیں آتا ہے
بے تاب کیِا ہے اُس نے، جسے بہلانا تک نہیں آتا ہے
قاتل ہے مگر جی بھر کے اُسے تڑپانا تک نہیں آتا ہے
دیوانے تو قبل از وقت بھی کھا سکتے ہیں فریبِ دار و رسن
اس زلف کو یہ مانا کہ ابھی بل کھانا تک نہیں آتا ہے
اب قلب و جگر کی سمت نہیں دلدوز نگاہیں بھی یعنی
پھولوں کے لیے اب کانٹوں کا نذرانہ تک نہیں آتا ہے
موسم کا تقاضا ہے کہ کوئی اندازِ جنوں دکھلاؤں مگر
مجُھ کو تو ابھی مفہومِ جنوں سمجھانا تک نہیں آتا ہے
ہر شعرمیں کوئی بات نئی کہتا ہوں پئے تحصیلِ ہُنر
لوگوں کو تو میری بات ابھی دہرانا تک نہیں آتا ہے
میں ان سے بچھڑ کر بھی اب تک زندہ تو یقیناً ہوں لیکن
ہر سانس ہے طعنہ زن کہ مجُھے مرجانا تک نہیں آتا ہے
پیش آئے تو ہم ان لوگوں سے بھی دوست کی صورت پیش آئے
جن لوگوں کو دشمن کی طرح پیش آنا تک نہیں آتا ہے
وہ اپنے آپ بھلا مجھ کو کس طرح بھُلا دے گا اخگرؔ
جب اپنے آپ کبھی اسکو یاد آنا تک نہیں آتا ہے
٭
No comments:
Post a Comment