دیکھو تمہیں جھگڑے کی شُرُ وعات کرو ہو
پھر مجھ سے وہی ٹیڑھے سوالات کرو ہو
کرنے کو تو جینے کی مِرے بات کرو ہو
سچ یہ ہے کہ تم موت کو بھی مات کرو ہو
معلوم نہیں کیسے بسر رات کرو ہو
آنکھوں سے یہ لگتا ہے کہ برسات کرو ہو
تم کو بھی مُحبّت کا کوئی روگ لگا ہے
ظاہر تو کچھ ایسی ہی علامات کرو ہو
دستُورِ حجاباتِ نظر رکھو ہو مَلحُوظ
اغیار سے بھی چھُپ کے مُلاقات کرو ہو
گویا تنِ تنہا ہے، سرِ بزم بھی اخگرؔ
دیکھو ہو اُسے تم ، نہ کوئی بات کرو ہو
٭
No comments:
Post a Comment