Total Pages Published شائع شدہ صفحات


Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click "How to Enjoy this Web Book"

Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click  "How to Enjoy this Web Book"
How to Enjoy this Web Book - Click Above ... اس ویب کتاب سے لطف کیسے اٹھائیں - اوپر کلک کریں

Amazon in association with JUSTUJU presents

English Translations

Webfetti.com

Please Click above for Akhgar Poetry in English

Monday, August 10, 2009

حنیف اخگرؔ: ایک نیم کلاسیکی شاعر کی آواز ۔۔۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی



ڈاکٹر محمد علی صدّیقی





حنیف اخگرؔ: ایک نیم کلاسیکی شاعر کی آواز


سیّد محمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا دوسرا مجموعۂ کلام میرے سامنے ہے۔ اخگرؔ اردو شاعری کی روایت کے پاس دار ہیں۔ اور گذشتہ مجموعہ کی طرح اس مجموعہ میں بھی ان کی غزل کا مخصوص رنگ نمایا ں ہے۔

حسن و عشق کے بیان میں اخگرؔ کا رویّہ ایک روایتی صوفی سے مشابہ ہے، جس کے لیے حسن و عشق معرفت خداوندی کے استعارے ہیں۔ لیکن، کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ داغ اور ان کے مقلّدین کے تتبّع میں عشقِ مجازی کی کیفیات کے بیان میں زیادہ لطف لیتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو داغ کے پورے کلام کو متصوّفانہ شاعری ہی کے دائرہ میں رکھا ہے، اور عشقِ حقیقی کی تفہیم کے راستے میں اس قدر دشواریاں کھڑی کردی ہیں کہ معاً یہ خیال آتا ہے کہ آخر تصوّف سے اس قدر تعلّق یا خوف کیوں، کہ اس کے ساتھ نسبت، خواہ وہ مثبت ہو یا سلبی ہی، شاعری کا جواز بن جائے۔ خواہ سید محمد حنیف اخگرؔ 67, 68 سال کے ہوچکے ہوں ۔۔ محبّت و عشق کے جذبات کو ان کی قلمروئے شاعری سے جلاوطن کرنا یا سمجھنا مناسب ہوگا؟ ۔۔۔


مجھے تو امیرؔ اور داغ کا کلام، جسے واقعتاً بڑھاپے کا کلام کہا جاسکتا ہے ، زیادہ جوان، بلکہ ہیجان انگیز محسوس ہوا۔ ممکن ہے یہ کسی درست نفسیاتی داعیے کے مطابق ہی ہو ۔۔۔


جہاں تک اخگرؔ صاحب کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا تعلّق ہے، اس کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ فی زمانہ اس شعبہ میں اچھے اشعار کی تخلیق مشکل کام ہے۔ غزل ہی ایک ایسی صنفِ سُخن ہے، جس میں دوسرے درجہ کا شاعر بھی بسا اوقات اوّل درجہِ کے اشعار کہہ سکنے پر قادر ہوسکتا ہے۔ اور ایسا اکثر ہوا ہے کہ بعض اچھے اشعار کے خالق بھی اچھے شاعر نہ کہلائے جاسکے۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا،ا ور غزل کی ایک خوبی بیان کرنے کے لیے آگیا تھا، ورنہ یہ بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے کہ بعض نادرِ روزگار شعرأ سے بھی پیش پا افتادہ بلکہ رکیک مضامین کے شعر سرزد ہوگئے ہیں،ا ور اس سے ان بزرگ شعراء کی سُبکی کا پہلو نہیں نکلتا۔


اخگرؔ کے کلام میں کسی قسم کی ہمہ دانی یا ہیچ مدانی کا احساس نہیں ملتا۔ وہ سیدھے سادھے، قابلِ ادراک عشقیہ جذبات کی شاعری کرتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنی غزلوں میں سوال انگیزی کی فضأ پیدا کرکے اس خیال کو تقویت بخشتے ہیں کہ غزل کے شاعر کے پاس متعدد اقسام کے نشتر ہوتے ہیں۔ اور وہ موقع کی مناسبت سے جیسا نشتر چاہتا ہے استعمال کرجاتا ہے۔


اخگرؔ ابھی تک اپنے نمائندہ لہجہِ کی تلاش میں ہیں۔ ان کے جس وصف نے سب سے زیادہ متأثر کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ دس سال سے زیادہ عرصہ سے نیویارک، امریکہ، میں اردو شاعری کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اردو مشاعرہ کا ایک تہذیبی مزاج ہے۔ شاید اس کدوکاوش کی وجہ سے شاعری کو مقدور بھر وقت نہ دے سکے۔ یورپ اور امریکہ میں مقیم شعراء اور شاعرات کے ساتھ اپنے تہذیبی وجود کی نمود و نگہداشت کا فریضہ بسا اوقات اپنے وجود کی بقاء سے زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ یوں ہو تو پھر تخلیقی صلاحیّتیں بھی متأ ثر ہوتی ہیں۔


اخگرؔ صاحب کے بعض متأثر کن اشعار مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر درج ذیل ہیں۔ ان اشعار میں روایت کی پاسداری، اور جدید اثرات بھی صاف طور پر عیاں ہیں۔ ہر شاعر اپنی ذات کے حوالے سے معاشرہ اور کائنات کے بارے میں تصوّرات رکھتا ہے۔ روایت کی پاسداری میں بھی ایک مخصوص رنگ ہے؂


جسے سمجھی تھی دنیا رقصِ بسمل

وہ اعلانِ شکستِ آرزو تھا


تا کُجا یہ سیر دنیائے تصوّرخود فریب

تابہ کہ یہ کھینچنا تصویر سے تصویر کا


دل پہ اکِ نقشِ کفِ پا اُبھرا

ایک صحرا میں گُلِ تر دیکھا


ڈوب جانے کا خیال آیا جہاں

وہیں پایاب سمندر دیکھا


ہے تصوّر میں کوئی مست خرام

اک قیامت سی بپا ہے مجھ میں


سخت حیران ہے آئینہ جاں

کوئی تو میرے سوا ہے مجھ میں


اور اگر جدید روایت سے گُریز پائی ملاحظہ کرنی ہو تو پھر مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے ؂


یادش بخیر مدرسۂ عشق کا نصاب

ہر دن نیا سبق تھا، کچھ آموختہ نہ تھا


یہی جنوں کا مطالبہ ہے، یہی تقاضابھی ہے بے خودی کا

میں تشنہ رہ کر ہی تشنگی سے علاج کرتا ہوں تشنگی کا


عجب تناسب ہے یہ کہ اپنے، ہزار آنسو نکل پڑے ہیں

کبھی جو بھولے سے آگیا اک خیال دل میں کسی خوشی کا


بادل ہیں سر پر اور نہ سایہ اِس طرف

سورج بھی ہے کوئی پسِ دیوار دیکھنا


آزارِ ہجر اپنی جگہ مستقل مگر

دل مجھ سے تیرے قرب کا خواہاں نہیں رہا


دیکھ لی میری جرأتِ پرواز

اب ذرا بال و پر لگا مجھ کو


ہر اسیرِ خیالِ مستقبل

حال سے بے خبر لگا مجھ کو


میں آئینہ انہیں کی محبّت کا ہوں اگر

حیراں وہ کیوں ہیں دیکھ کے، کیا بات ہوگئی


اخگرؔ نیم کلاسیکی [شاعر] ہیں، اور مجھے ان کے ہاں امیرؔ مینائی، اور حسرتؔ موہانی کے رنگوں کا ایک ایسا آمیزہ واضح طور پر نمو پاتا ہوا نظر آرہا ہے، جس میں سینسوئسنیس [حساسیت] اور شوخی تو شعری مزاج کی رعایت سے موجود ہے اور قدما کے رنگ میں شعر کہنے کی خواہش شاید اس بناء پر ہےکہ وہ خود کو اس رنگ میں شعر کہنے کا اہل سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ ایسا ٹھیک ہی سمجھتے ہیں۔ میں ان کے نئے مجموعہ کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہوں۔

Sensuousness= حساسیت، ذکاوت، معقولیت

کراچی

نومبر 2, 1997ء


ڈاکٹر محمد علی صدیقی



٭


No comments:

Site Design and Content Management by: Justuju Media

Site Design and Content Management by: Justuju Media
Literary Agents & Biographers: The Legend of Akhgars Project.- Click Logo for more OR eMail: Justujumedia@gmail.com