-
پروفیسر ریاض صدّیقی
روایت کی روشنی
اردو شعر و ادب کے [ کلاسیکی عروج کے] بعد، نوآبادیاتی دور کی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ اس نے نوآبادیاتی اور نئی نوآبادیاتی، ثقافت و سیاست، اور اقتصادی و کاروباری مفادات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے غیر جانبداری، اور ادب برائے ادب کے رجحانات کو ترجیح دی۔ اس کے اثرات و نتائِج 1960ء کے بعد سامنے آنے لگے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب یورپ و امریکہ سے ایسے بہت سے رجحانات و عقائد وارد ہوئے جن کی پیروی چھان پھٹک کیے بغیر[ بے دریغ] کھلے عام کی گئی۔ ان طوفانی ہواؤں نے ایک طرف تو ہماری بہترین کلاسیکی روایت کی بنیاد کو اُکھاڑ پھینکا، اور دوسری طرف شعر و ادب کے وسیلے سے سماجی وسیاسی اور ثقافتی و علاقائی شعور کے اظہار کو فنّی و ادبی حوالوں سے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ اس پورے ہی عہد پر، جو ابھی تک برقرار ہے، لسّانی تشکیلات، وجودیت، سرریلیزم، تحلیلِ نفسی، اور جدیدیت کے بہت سے مختلف و متضاد رجحانات کی چھاپ تھی۔ ابلاغی ذرائع کی دستیابی اور اُن دِنوں قائم حکومتوں کا ان کے لیے نرم روّیہ اور بلاواسطہ تعاون بہت کارگر ثابت ہوا۔
جس دور کا ذکر ہورہا ہے، اس میں بین الاقوامی سطح پر ادبی، فکری، اور شعری و تنقیدی جہتوں کا اگر غیر جانبداری اور دیانت کے ساتھ مطالعہ کریں تو ہماری جدیدیت کا اندازِ نظر یک طرفہ اور آمرانہ محسوس ہوگا، جس نے دوسرے رخ پر سنسر نافذ کیے رکھا۔ ادب میں نعرے بازی اور پروپیگنڈے کے خلاف جارحانہ ردِّ عمل کا اظہار کرنے والے جدیدیت نوازوں کے پُرآہنگ دعوے اور مفروضات سازی، بجائے خود ایک نعرہ اور پروپیگنڈہ ہیں۔
ایزرا پونڈ نے جب کہا تھا کہ “میک اٹ اے نیو”، یا 1950 ء میں جب ورجینا ولف نے اعلان کیا تھا کہ ادب اچانک بالکل بدل گیا ہے ، کیونکہ انسان بدل گیا ہے، تو یہ بھی نعرہ ہی تھا۔ حنیف اخگرؔ صاحب کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے دور کے ادبی و فکری پس منظر سے ان کا کوئی سمبندھ قائم نہیں ہوا۔ تعجّب اس وقت ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود مغرب ان سے کوسوں دور ہے۔ اور ان کی ہند اسلامی کلاسیکیت کا آبگینہ تندیِ مغرب سے ذرا بھی نہیں پگھلا۔ اپنی پوری شاعری میں انہوں نے انگریزی کا صرف ایک لفظ استعمال کیا ہے
-
تمہیں پتہ تو ہے اخگرؔ کہ لفظ کیا تھے اور
ہر ایک لفظ کو پیراگراف کس نے کیا
ہماری جدید شاعری نے بغیر کسی انتخاب کے انگریزی لفظوں اور اصطلاحات کو شعر کیا ہے۔ اور اب تو اردو کا لب و لہجہ انگریزی لفظوں، فقروں، اور اصطلاحات کی نوآبادیات بنتا جارہا ہے۔ اس نئی فضا میں ان کی نیم کلاسیکی جدیدیت کی پذیرائی کس حد تک ہوگی، ایک سوال ہے، جس کا جواب سامنے ہے کہ نہیں ہوگی۔ 1857ء کے بعد ہمارے بزرگ اساتذہ نے انگریزی لالٹینوں کی روشنی میں اپنی کلاسیکیت اور مشرقیت کا رنگ، آہنگ نکھارا، مگر اب ہمارے شعر و ادب، ہماری ثقافت، موسیقی اور گائیکی نے مغرب کے رنگ و آہنگ کو قومیا لیا ہے۔ جیسا کہ یہ سب کچھ ان کا اپنا ہی مال ہو۔ اخگرؔ صاحب نے ٹھیک ہی کہا ہے
-
غربت میں رہی ، جس کے بنانے ہی کی فکر
اس ملک کے حالات بگڑتے ہی رہے
اور بہت بروقت اس سانحے پر ماتم بھی کیا ہے
-
یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ، اپنے ایوانِ رنگ و بو میں
ہیں جمع سب مہر و ماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا
اور، اب ان کا یہ شعر آپ کے اندر ایک عجیب سا خوشگوار ہیجان پیدا کرے گا
-
پھر درِ جاں پہ اس نے دستک دی
رہ گیا ہے کچھ، اس مکان میں کیا
بعد جدید دور کی موڈرنسٹ نسل، مستی اور بے خبری میں اردو زبان اور شعر و ادب کو انگریزی زبان و کلچر کا لباس پہنا رہی ہے، مگر کوئی ان کو یہ نہیں بتاتا کہ یورپ و امریکہ کا شعر و ادب کس قدر فیّاضی کے ساتھ سابق نوآبادیاتی ملکوں کے الفاظ و فقرے استعمال کررہا ہے، اور ان کے یہاں مختلف علاقوں کے مُروّج الفاظ و فقرے انگریزی شعر و ادب کی ساخت میں شامل رہے ہیں۔ اہلِ زبان انگریزوں کو بھی اب یہ احساس ہوچلا ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوں کی رائج کی ہوئی زبان اور اس کے شعر و ادب کے سائے سمٹ رہے ہیں۔
حنیف اخگرؔ صاحب نے اصل کام ہی یہ کیا کہ اردو شاعری کی قبل از نوآبادیاتی کلاسیکیت اور مابعد الطبیعاتی بنیاد کو اپنی تخلیقی کیمیا گری میں جذب کیا ہے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے سوداؔ، میرؔ، نظیرؔ، مُصحفیؔ، اور غالبؔ، کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔۔۔ جنہوں نے اردو کلاسکس کی عمارتِ عُظمیٰ بنائی، اور اس پر آفاقی تاریخیت کا وہ رنگ چڑھایا، جس سے بچ کر کلاسیکی انداز میں کوئی نئی سمت نکالنا محال ہے۔ فیضؔ جیسا شاعر بھی سوداؔ، میرؔ، اور نظیرؔ و غالبؔ کے جادو سے بچ نہ سکا۔ اس کے باوجود، کلاسیکیت کی ہمہ گیری اور آفاقیت کو ثبات حاصل رہے گا۔ کیونکہ اس کی جڑیں مقامی سرزمین کے اندر بہت گہرائی تک پیوست ہیں اور اس کی نشوونما مقامی ثقافت ہی کی گود میں ہوتی ہے۔ چنانچہ، اس میں تنوّع، گیرائی، اور قوّت و تأثر کا ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس کی بھٹّی میں کسی بھی زبان کا لفظ، مضمون، یا خیال ڈال دیجیے تو وہ تپ کر کُندن بن جائے گا۔ اس کی نمایاں مثال فراقؔ کی شاعری، اور پطرسؔ بخاری کی نثر ہے۔ زیرِ نظر اشعار کی قطار اردو کی کلاسیکی روایت کی لے اور آہنگ پر دلیل ہے
-
خیالِ عظمتِ جام و سبو تھا
بوقتِ مئے کشی میں باوضو تھا
چہرہ بہ رنگ و نورِ حیا سرخ تھا مگر
اظہارِ شوق پر وہ برافروختہ نہ تھا
وارداتِ عشق اور اخگرؔ غزل کے روپ میں
کھینچنا ہے غم کی جیتی جاگتی تصویر کا
حالِ مریض عشق ہے بیکار دیکھنا
جائے گا جان لے کے یہ آزار دیکھنا
اب اعتبار عہدِ وفا کررہے ہیں وہ
جب اعتبارِ عمرِ گُریزاں نہیں رہا
ہر جبر اختیار ہے عہدِ وفا کے بعد
پھر بھی وہ کچھ ملول ہے عذرِ حیا کے بعد
اس کی شبیہ اس کا سراپا نہیں تو کیا
تشریحِ گیسو و لب و رخسارِ یار ہو
مجھ کو تلاشِ نقشِ کفِ پائے یار ہے
میری جبینِ شوق بہت بیقرار ہے
بیسویں صدی کی جدید کلاسیکی اردو شاعری کی فہرست میں اپنے بہت سے معاصروں کے ساتھ اب حنیف اخگرؔ کا نام بھی لکھا جانا چاہیے۔ البتّہ، ان کے مقام کے تعیّن کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ اردو کی ادبی تاریخ لکھنے والوں نے ایسی کوئی مستند اور مُکمّل تاریخ ابھی تک مُرتّب نہیں کی ہے، جس میں 1960ء کے بعد آنے والے اس قبیل کے شاعروں کے نام موجود ہوں۔
اخگرؔ صاحب ان معنوں میں حیات و کائنات کے شاعر نہیں ہیں کہ ان کی مجموعی شاعری کا نمایاں تأثر کسی سیاسی و سماجی اور تاریخی شعور سے عبارت ہو۔ کیونکہ، ان کی شاعری پر ایک طرح کی صوفیت اور مذہبی شعور کی کارفرمائی زیادہ حاوی ہے۔ تاہم، اسے مذہبی شاعری کی قسم میں بھی شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے یہاں جس قسم کا صوفیانہ رنگ اور اس حوالے سے ایک جمالیاتی و حسّی ثقافت اُبھرتی ہے، بجائے خود کلاسیکی[روایت، شاعری] ہی کی مرہونِ منِّت ہے
-
سب جانتے ہیں کس کے اشارے پہ دفعتاً
دو ٹکڑے آسماں پہ قمر ہوکے رہ گیا
بے ساختہ لبوں پہ مرے ہر دعا کے بعد
آتا ہے ایک نام ہمیشہ خدا کے بعد
حدودِ شریعت میں محدود رہ کر
انہیں بے حد و انتہا چاہتا ہوں
سخت حیران ہے آئینۂ جاں
کوئی تو میرے سوا ہے مجھ میں
آنکھوں میں میرے آتے ہی، دل میں اُتر گئے
جلوے جو چھَن کے پردۂ حائل سے آئے ہیں
وہ دل میں اور قریبِ رگِ گلو بھی ملے
زراہِ لطف مگر، ہم سے روبرو بھی ملے
کھُوج میں اس کی سرگرداں ہوں
شہ رگ سے جو دور نہیں ہے
ظرفِ حجابِ عشق ہی وجِہ نمودِ حسن تھا
جلوے تمام دیدہ و دل میں سما کے رہ گئے
اک زحمتِ نگاہ تو فرمائیے کہ ہم
آئینہ بن کے عالمِ حیراں تک آگئے
اچھا شعر وہ ہوتا ہے جو آشیانے کے قریب دامِ سخت کے مُترادف ہو کہ پڑھنے والا لمحۂ موجود میں اس کی گرفت کا شکار ہوجائے۔ غالبؔ نے اسی کیفیت کو غیب سے مضامین آنا کہا ہے۔ گو کہ کوئی مضمون یا خیال عملاً غیب سے وارد نہیں ہوتا ہے، بلکہ تخلیق کار کے کسی ایسے تجربے یا مشاہدے کی دَین ہوتا ہے جو اس کے لاشعور میں بند ہو کر رہ گیا ہو۔ اور کوئی تحریک، یا اتّفاق اس قید و بند کو توڑ دے۔ اخگرؔ صاحب کے ہاں اس سطح کے شعر بھی ملتے ہیں
-
تاب نہیں تو مہر کیا، ایک دیا بجھا ہوا
مجھ کو بجا کہا گیا، ایک دیا بجُھا ہوا
روبرو آئینے کے میں، خود کو جو دیکھنے گیا
اس نے مجھے دکھا دیا، ایک دیا بجھا ہوا
اس پوری غزل میں اظہاریت اور تأثر کا ماخذ ردیف “ایک دیا بجھا ہوا” ہے۔
-
دل اپنا عزمِ ترکِ تعلّق پہ بارہا
مائل ہوا ضرور، مگر ہوکے رہ گیا
کراچی
پروفیسر ریاض صدّیقی
٭
-
Tuesday, August 11, 2009
روایت کی روشنی: پروفیسر ریاض صدیقی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment