بُوڑھا برگد، ٹھنڈے سائے
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی گزشتہ تیس برسوں سے امریکہ کے دل نیویارک میں مقیم ہیں۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ا ور اپنی وضع قطع، افتادِ طبیعت، مشرقی روایات، پر لطف گفتگو، مخلصانہ میزبانی، دوستانہ روّیوں، برادرانہ شفقتوں، اور دیندارانہ مزاج کی وجہ سے تمام حلقوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔
ان کی ادبی تنظیم “حلقۂ فن و ادب” نیویارک میں ان کے اور ان کے دست ہائے راست یٰسین زبیری، عزیزالحسن، اور وکیل انصاری کے تعاون سے فعّال کردار ادا کررہی ہے۔ ہر سال یومِ اقبال کے موقع پر ایک بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام اس ادارے کی ایک بہت بڑی خدمت ہے، جس کی وجہ سے پورے شمالی امریکہ میں اس کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ مقامی معاصرانہ چپقلش حنیف اخگؔرؔ کے حوصلوں کو مزید مہمیز عطا کرتی ہے۔ انہوں نے جو ذمّہ داری اٹھائی ہے، وہ اسے احسن طریقے سے نباہنے میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ امریکہ جیسی آزاد، بے فکر اور بے مہار دنیا میں رہ کر بھی انہوں نے اپنے رہن سہن، تہذیب، ثقافت، اور دین و مذہب سے لگاؤ میں کوئی رخنہ نہیں آنے دیا۔ وہ اور ان کے تمام اہلِ خاندان صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ اور تمام بچّے والدین کے حسن تربیت اور حسنِ اخلاق کا عمدہ نمونہ ہیں۔ بیگم محبّت اور خدمت کے جذبے سے سرشار رہتی ہیں، اور رکھ رکھاؤ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ زمانۂ شباب، جو عموماً رامش و رنگ، سرود و نغمہ، اور نُور و رعنائی سے عبارت ہوتا ہے،[ میں بھی] حنیف اخگرؔ کا دامن کبھی آلودہ نہیں ہونے پایا۔ وہ روحانی فضیلتوں اور قلبی کیفیات کی برکتوں سے واقف ہیں، اور ان کے حصول میں کوشاں۔
حنیف اخگرؔ کا پہلا مجموعۂ کلام “چراغاں” کے نام سے چھپ کر اہلِ فکر و دانش سے داد سمیٹ چکا ہے، اور اب وہ اپنا دوسرا مجموعہ قارئین کی نذر کررہے ہیں۔ اردو شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں دو قسم کے مکتبہ ہائے فکر کا سُراغ ملتا ہے۔ ایک تو وہ جو اپنی پختگیِ فکر، قادر الکلامی، اور روایت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے مقبول و محترم ہیں۔ دوسرے وہ جو تازگیِ خیال، شگفتگیِ احساس، ندرتِ الفاظ اور جدّتِ فکر کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک طبقۂ شعرا ٔ وہ بھی ہے، جن میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ حنیف اخگرؔ کے کلام میں پختگیِ فکر،کلاسیکی رکھ رکھاؤ، اور روایتی لب و لہجہ کا خاص چلن بدرجۂ اتم موجود ہے، جس کی وجہ سے ان کی غزل جذبات، محسوسات، دلی کیفیات اور قلبی واردات کی بھرپور آئینہ دار ہوتی ہے۔ وہ جس رنگِ تغزّل کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ کلاسیکی اندازِ فکر رکھنے والوں میں ہمیشہ مقبول رہا ہے۔ زبان و بیان پر مُکمّل دسترس، اور فنّی رُموز و نکات پر بھرپور توجّہ نے ان کی غز ل کو تقلیدی روش رکھتے ہوئے بھی ایک امتیازی وصف عطا کردیا ہے۔ اسی لیے فکروخیال کی ہمہ گیریت اور خلوصِ قلب کی بھرپور رعنائی ان کے ہاں ملتی ہے۔ انہوں نے شکست و ریخت کے اس عہد میں بھی اپنی انسانیت نواز اخلاقیات کو بیرونی تغیّرات کی زد میں نہیں آنے دیا۔ ایک طرف ان کے ہاں انبساطی کیفیت، سرخوشی، سرشاری اور والہانہ پن ہے، تو دوسری طرف عرفانِ غم کے عناصر بھی اپنی پوری سج دھج سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں
-
کبھی مسکرائے جو بھول کر، تو ہمارے اشک اُبل پڑے
جو بہار آئی سمجھ گئے کہ یہی خزاں کا پیام ہے
یہ جہاں ہے اخگرؔ بے خبر، یہاں رنج و غم سے کہاں مفر
جو کلی کھلی و ہ اُجڑ گئی، یہی گلستاں کا نظام ہے
یا
عالمِ ترکِ تعلّق کو زمانہ گزرا
دل گر تیرے تصوّر کا طلبگار بھی ہے
اپنی دیوار کے سائے پہ نہ اتراؤ بہت
کچھ نہ کچھ سائے کا سورج سے سروکار بھی ہے
یا
جب اس کا نام لیا، تب ہوا ہمیں محسوس
مزا حلاوتِ کام و دہن میں کتنا تھا
یا
کھو گئے ہم تری آہٹ پا کر
یعنی آواز کو سن کر دیکھا
یا
بادِ خرام ِناز نے آکر صبا کے ساتھ
زندانِ دل کو صحنِ گلستان بنادیا
یا
غنچہ وہ میرے دل کا کھلائے تو بات ہے
آئے صبا سے پہلے کہ جائے صبا کے بعد
یا
بہ کماِ ل ہوش و خِرَد، مجھے ذوق و شوقِ جنوں بھی دے
مرے پاس پائے طلب بھی ہے، مرے پاس دستِ دعا بھی ہے
یا
اپنے وطن میں آئے تو ایسا لگا ہمیں
گویا جوارِ گورِ غریباں تک آگئے
حنیف اخگرؔ نے غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا مقابلہ پامردی سے کیا ہے۔ اور یہِں سے ان کی غزل میں غم کی چنگاریاں درد و یاس کی راکھ میں بھڑکتی نظر آرہی ہیں۔ غم و انبساط کی ان کیفیات نے ان کی غزل کو دو آتشہ بنادیا ہے۔ وہ ہیجانی لہروں، جذباتی دباؤ، اور متصادم خیالات کو بھی رفعتوں سے آشنا کردیتے ہیں۔ ان کے تخیّل کی کرشمہ سامانی سے ایک معمولی سا جذبہ یا خیال ان کی غزل میں لطافت اور سبکساری کی خصوصیات سے مملو نظر آتا ہے۔ وہ غزل میں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ایک منظّم اور محتاط انداز بھی رکھتے ہیں۔
حنیف اخگرؔ نے جگر مراد آبادی، اور سیماب اکبر آبادی کی جمال پرستی کو ترفّع دے کر اپنا انفرادی رنگ پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ یاد رہے کہ جگر کی غزل میں رندانہ مضامین کے بیان میں جو و الہانہ پن پیدا ہوتا ہے، وہ حنیف اخگرؔ کی غزل میں پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ حضرت ریاض خیر آبادی کی طرح حنیف اخگرؔ نے کبھی آتشِ سیّال کو منہ نہیں لگایا۔ اس سلسلہ میں جو کچھ بھی لکھا تخیّل کی گلکاریوں کا بھرپور اظہار ہے۔ کہیں بھی پژمردگی یا مایوسی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ جینے کی اُمنگ بڑھتی ہے، اور زندگی کے حُسن پر اعتبار پُختہ تر ہوجاتا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں
-
یہی جنوں کا مُطالبہ ہے، یہی تقاضا ہے بے خودی کا
میں تشنہ رہ کر ہی تشنگی سے علاج کرتا ہوں تشنگی کا
خیالِ عظمتِ جام و سبو تھا
بوقتِ مے کشی میں با وضو تھا
اک جستجوئے غم ہے غمِ جستجوئے یار
ہم جستجوئے غم کہ غمِ جستجو کریں
مری پارسائی اخگرؔ ،تھی اسی کی چشم پوشی
وہ نظر سے کیوں پلاتا، جومیں بادہ خوار ہوتا
جذبۂ رندانہ آخر کار کام آہی گیا
میرے ساقی کے لبوں پر میرا نام آہی گیا
بہت بُری ہے مگر شیخ جی یہ فرمائیں
کبھی جناب نے کوئی شراب پی کیا ہے
مئے ارغواں کس کی آنکھوں سے چھلکی
کہ مخمور پیرِ مُغاں ہوگیا ہے
حنیف اخگرؔ زندگی کی سادہ اور سچّی قدروں کے شیدائی ہیں۔ جدید تہذیب کے کھوکھلے پہن اور تصنّع کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کی مشینی زندگی میں رہتے ہوئے اس کے نت نئے تجربوں سے گزرتے ہیں۔ اسی لیے اس عہد کی مریضانہ بے حسی سے بے زار نظر آتے ہیں۔ ان کا ایمان۔۔ اخلاص، حقیقت پسندی، اور سادگی جیسی اقدار پر پختہ ہے۔ وہ حسن، خیر اور صداقت کو انسانی زندگی کے بنیادی اوصاف گردانتے ہیں۔ غزل جن جن رجحانات اور میلانات کے سبب وسعت سے ہمکنار ہوتی گئی، وقتاً فوقتاً ان عناصر کی شمولیت سے حنیف اخگرؔ کا کلام حسین اور دلآویز بنتا گیا
-
شعر بن کر مرے کاغذ پہ جو آیا ہے لہو
اشک بن کر تر ے دامن سے اُلجھتا ہوگا
یا
کتَبۂ قبر پر مرا نام نہیں لکھا گیا
صرف بنادیا گیا، ایک دیا بجُھا ہوا
یا
غیروں کی سازشوں نے خود اپنوں کے روپ میں
صبحِ وطن کو شامِ غریباں بنا دیا
یا
جس کو بھی اب نصیب ہو قلب و نظر کی روشنی
ہم نےدیا تو برسرِ شارعِ عام رکھ دیا
یا
عجیب بات ہے کہ ہم تلاش میں انہی کی ہیں
جو منزلیں گُزر گئیں، مُسافتوں کے درمیاں
یا
دل میں مُدّت سے اگرخاک ہی اڑتی ہے تو میں
حق بجانب ہوں اگر اس کو بیاباں سمجھوں
حنیف اخگرؔ نے غزل کی مُروِّجہ روایت کو کسی مقام پر بھی مجروح ہونے نہیں دیا۔ ورنہ آج کے زیادہ تر خام شعور شعراء اور جدّت کے نام پر نگارِ غزل پر ستم روا رکھنے والے قلم کاروں نے اس کے حسن کو نئے نئے تجربوں کے نام پر جس قدر بگاڑا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے برعکس، حنیف اخگرؔ زندگی کے سچے شعور اور جذبہ و اظہار کی صداقت کو اپنی شاعری کا جزو بناتے ہیں۔ اور ایسے ایسے شعر تخلیق کرتے ہیں جو قاری کے احساسات میں ارتعاش پیدا کرکے گہرا تاَثر چھوڑتے ہیں۔ ان کی شاعری خیال کی لطافت اور جذبہ کی تہذیب سے عبارت ہے۔ وہ سُخن گوئی کو اظہارِ جذبات ہی کا نہیں، تہذیب جذبات کا خوبصورت ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں ہوسناکی کے عناصر ناپید ہیں۔ وہ حسن و عشق کے راستے دکھوں اور سکھوں کی منزلوں سے گزرتے ہیں۔ پاکیزہ خیال اور شستہ بیانی کا پرتو جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ یہ غزلیں مؤثر ہیں۔ کہیں سادگی، کہیں دلکش رنگینی، کہیں حسّاس سلامت روی، اور کہیں رومانی شباب کا رنگ۔ یہ سب عناصر اجتماعیت سے زیادہ انفرادیت کا رنگ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اندازِ نگارش میں روانی، مٹھاس، سرمستی و سرشاری ہے۔ حنیف اخگرؔ موت و حیات، رموزِ کائنات، اور مذہب و فطرت کے حقائق بیان کرتے وقت لہجے کی شائستگی اور زبان کے ترنّم کو برقرار رکھنے میں بے حد کامیاب ہوئے ہیں
-
سُنا نہیں ہے، کہ دیکھا نہیں ہے دنیا نے
ہمارے شہر میں آباد ہیں جو ویرانے
ایک اُمّید ہمارے دل میں باقی ہے صد شکر ہنوز
طاق میں مُدّھم ایک دیا سا ہم کو اچھا لگتا ہے
مقصدِ تخلیقِ آدم دیکھیے
سطوتِ نوعِ بشر آئینہ ہے
راز ہے اخگرؔ حیاتِ مُختصر
یا حیاتِ مختصر آئینہ ہے
فقط اعتقادِ نظر نہیں، مجھے اعتمادِ نظربھی ہے
کہ پسِ کمالِ حجابِ شب ہی جمالِ نورِ سحر بھی ہے
قدم بھی دل نے خیالوں کی کہکشاں کے لیے
قیامِ قافلۂ یادِ رفتگاں کے لیے
حنیف اخگرؔ نے زندگی کی دشوار گزار گھاٹیوں میں مشاہدات و تجربات کی کئی مشعلیں روشن کی ہیں، جن سے درسِ وپیامِ حیات اخذ کرنا قارئین کا کام ہے۔
جولائی ۹، ۱۹۹۷ء
پشاور
پروفیسر محسن احسان
٭
-
Monday, August 10, 2009
بُوڑھا برگد، ٹھنڈے سائے: پروفیسر محسن احسان پشاور
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment