ہوچکے ہیں وہ بھی اخگرؔ ہم خیال
حضرت ِناصح کو ہم سمجھائیں کیا
دل پہ جو گزری ہے وہ بتلائیں کیا
تمکو اب آئینہ ہم دکھلائیں کیا
حالِ دل تم سے نہ دیکھا جائے گا
اس سے بدتر ہے جگر دکھلائیں کیا
عشق کا غم، ان کا غم، دنیا کا غم
فکر ہم ہر سانس میں فرمائیں کیا
موت سے پہلے وہ آنے کا نہیں
کیا کریں بے موت ہی مرجائیں کیا
دفعتاً ممکن ہے اٹھے وہ نظر
وقفِ مرگِ ناگہاں ہوجائیں کیا
ربط و رنجش ان سے اب کچھ بھی نہیں
“جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا”
رہروی کی لاج ہی رہ جائے گی
رہنما کو راہ ہم دکھلائیں کیا
ہوچکے ہیں وہ بھی اخگرؔ ہم خیال
حضرت ِناصح کو ہم سمجھائیں کیا
٭
No comments:
Post a Comment