ہیں جاں بِلَب کئی، کئی بسمل سے آئے ہیں
جو لوگ اُٹھ کے اس کے مقابل سے آئے ہیں
ہیں جاں بِلَب کئی، کئی بسمل سے آئے ہیں
جو لوگ اُٹھ کے اس کے مقابل سے آئے ہیں
پیہم گزر کے سخت منازل سے آئے ہیں
آنسو ترے حضور تہہِ دل سے آئے ہیں
طوفاں کو درسِ جہدِ مسلسل سے کیا غرض
یہ ولولے تو موج میں ساحل سے آئے ہیں
کچھ جان سے گزر گئے، کچھ جل کے رہ گئے
ہم جب گزر کے گرمیٔ محفل سے آئے ہیں
یارو ہمارا ذوقِ اسیری ہے دیدنی
خود لیس ہوکے طوق و سلاسل سے آئے ہیں
آنکھوں میں میری آتے ہی دل میں اُتر گئے
جلوے جو چھَن کے پردہ حائل سے آئے ہیں
طوفاں سے بڑھ کے ایک قیامت ہیں وہ پیام
جو مدوجزرِ سینۂ ساحل سے آئے ہیں
مستحسن یقیں دلِ اخگرؔ جبینِ شوق
آئینہ رو سب آپ کی محفل سے آئے ہیں
٭
No comments:
Post a Comment