عالمِ جانکنی میں ہوں نبض تو برقرار ہے
کوئی دعا کے واسطے ہاتھ ابھی اُٹھائے کیوں
تنگ ہے دل کہ مستقل اس کو بھلائے جائے کیوں
یاد جسے نہ آئیں ہم وہ ہمیں یاد آئے کیوں
صورتِ اشک آنکھ سے دل مرا بہہ نہ جائے کیوں
وہ مجھے بزمِ ناز میں دیکھ کے مسکرائے کیوں
مرہمِ جاں سے زخمِ دل اور بھی کچھ ہرے ہوئے
چوٹ پہ چوٹ جب لگے چوٹ اُبھر نہ آئے کیوں
میری طرف تو وہ نظر اُٹھتی ہے بار بار اب
خواہشِ مرگِ ناگہاں جی سے نکل نہ جائے کیوں
عہدِ وفا کے ساتھ جب مشقِ جفا کا ذکر ہو
پھر مرے نام سے بھلا اس کو حیا نہ آئے کیوں
خاص نگاہِ ساقیِ مست ہو جب مری طرف
شعلہ سا جام سے مرے اُٹھتا نظر نہ آئے کیوں
اس کی حیا کا پاس ہی میری انا کی لاج ہے
یاد کروں تو میں کروں وہ مجھے یاد آئے کیوں
عالمِ جانکنی میں ہوں نبض تو برقرار ہے
کوئی دعا کے واسطے ہاتھ ابھی اُٹھائے کیوں
اخگرؔ ناتواں کے جب ہوش و حواس چل بسے
پُرسشِ حال کے لیے آئے بھی وہ تو آئے کیوں
٭
No comments:
Post a Comment