لمحۂ ترکِ تمنّا ہی نہیں آتا ہے
اور جانے کو دہائی پہ دہائی جائے
اشکِ خوں سے جو کہانی نہ سنائی جائے
غم کی تصویر ہی دامن پہ بنائی جائے
چشمِ اُمّید سے میں نے اسے دیکھا تھا مگر
اس حقیقت کی کہانی نہ بنائی جائے
صورتِ اشک، تمنّائیں بکھر جائیں گی
ٹھیس اب شیشۂ دل کو نہ لگائی جائے
لمحۂ ترکِ تمنّا ہی نہیں آتا ہے
اور جانے کو دہائی پہ دہائی جائے
ایک ہو خوُنِ تمنّا تو کوئی سوگ منائے
مرگِ انبوہ ہے، شہنائی بجائی جائے
دوپہر سایۂ دیوار نہ ٹھہرا اخگرؔ
چلو اٹھ جاؤ کہ دیوار نہ ڈھائی جائے
٭
No comments:
Post a Comment