مایوسیاں چھپائے چلے جارہے ہیں ہم
بس قہقہے لگائے چلے جارہے ہیں ہم
مایوسیاں چھپائے چلے جارہے ہیں ہم
بس قہقہے لگائے چلے جارہے ہیں ہم
جب تک نبھے نبھائے چلے جارہے ہیں ہم
دانستہ چوٹ کھائے چلے جارہے ہیں ہم
اُکتا گیا ہے دل غمِ دوراں سے کس قدر
خوشیوں کے گیت گائے چلے جارہے ہیں ہم
بے حد قریب ہے وہ جسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر
خود فاصلے بڑھائے چلے جارہے ہیں ہم
وہ کوہِ غم جسے نہ زمانہ اُٹھاسکے
دل پر اسے اُٹھائے چلے جارہے ہیں ہم
تیرِ نظر کی بات کے چھڑنے کی دیر تھی
بس حالِ دل سُنائے چلے جارہےہیں
اخگرؔ، تصوّرات کی دنیا میں مستقل
کیا کیا محل بنائے چلے جارہے ہیں ہم
٭
No comments:
Post a Comment