اُس کی شبیہ، اُس کا سراپا نہیں تو کیا
تشریحِ گیسو و لب و رُخسار یارہو
بنیاد ہی نہ گھر کی اگر پائیدار ہو
پھر کیوں نہ زلزلوں کا گُزر بار بار ہو
ہوتا ہے بے قرار تو دل بے قرار ہو
لیکن نہ اس قدر کہ اسے ناگوار ہو
دستِ جفا بھی چاہیے سرگرمِ کار ہو
جب ارتکابِ جرمِ وفا بار بار ہو
دل یوں اسیرِ حلقۂ گیسوئے یار ہو
“جیسے کسی حَسیِن کی گردن میں ہار ہو”
توقیرِ سجدہ یوں مرے پروردگار ہو
میری جبیں پہ نقشِ کفِ پائے یار ہو
اتنا ابھی شدید نہیں، انتشارِ زیست
جس پر گُمانِ برہمیِ زلفِ یار ہو
اُس کی شبیہ، اُس کا سراپا نہیں تو کیا
تشریحِ گیسو و لب و رُخسار یارہو
مائل نہیں وہ پُرسشِ احوال پر ابھی
شاید کچھ اور زار مرا حالِ زار ہو
رُت کوئی ہو، قفس میں چمن کے مزے کہاں
وہ موسمِ خزاں ہو کہ فصلِ بہار ہو
دیوانگی، فریفتگی ہی نہیں تو کیا
اخگرؔ ترا فریفتہ دیوانہ وار ہو
٭
No comments:
Post a Comment