جو کچھ لکھا حوالے کردیا دنیا کے اے اخگرؔ
دلوں کو منتقل کرتے رہے ہم، روشنی اپنی
نہ غم ہی کا کوئی غم ہے، نہ ہے کوئی خوشی اپنی
محبّت سے عبارت ہوگئی، اب زندگی اپنی
خوشی کا نام لینے سے نکل آتے ہیں اب آنسو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، کہ کیسی ہے خوشی اپنی
شبِ ہجراں اُجالے کے لیے آنسو ہی کافی ہیں
ستاروں سے کہو لائیں نہ ہم تک روشنی اپنی
ترے دیدار کا بس یہ طریقہ مجھ کو آتا ہے
تجھے جب دیکھنا چاہا تو، صورت دیکھ لی اپنی
مُحبّت سے ملا کیسا، وفاؤں کا صِلہ ہم کو
اُسی نے مار ڈالا جس کو سمجھے زندگی اپنی
نگاہِ لُطف سے دیکھے تو یہ بھی ہے کرم اس کا
کسی انعام کے قابل کہاں ہے بندگی اپنی
بھروسے کا نتیجہ ہے کہ اکثر زورِ طوفاں میں
وہیں ساحل اُبھر آیا جہاں کشتی رُکی اپنی
جو کچھ لکھا حوالے کردیا دنیا کے اے اخگرؔ
دلوں کو منتقل کرتے رہے ہم، روشنی اپنی
٭
No comments:
Post a Comment