شبابِ رفتہ کو آواز دُوں بہ لحنِ گُداز
غزل کے شعر سناؤں اگر اجازت ہو
حجابِ عشق اُٹھاؤں اگر اجازت ہو
جگر کے داغ دکھاؤں اگر اجازت ہو
بہ سیلِ اشک دکھاؤں کمال استغنیٰ
متاعِ درد لٹاؤں اگر اجازت ہو
شبابِ رفتہ کو آواز دُوں بہ لحنِ گُداز
غزل کے شعر سناؤں اگر اجازت ہو
ہر آرزو کو ابھی محوِ خواب رہنے دوں
کوئی اُمنگ جگاؤں اگر اجازت ہو
ریاضِ گلشن جاں میں کھِلاؤں دل کی کلی
صبا کے ہوش اڑاؤں اگر اجازت ہو
کبھی صدائے انا الحسن بھی بلند کروں
عُروجِ عشق دکھاؤں اگر اجازت ہو
اُگل رہے ہیں اندھیرے رفاقتوں کے چراغ
کچھ ان کی لَو کو بڑھاؤں اگر اجازت ہو
شکایتیں سرِ محفل محال ہیں اخگرؔ
عنایتیں ہی گِناؤں اگر اجازت ہو
٭
No comments:
Post a Comment