ہر اسیرِ خیالِ مستقبل
حال سے بے خبر لگا مجھ کو
تیرِ غم خاص کر لگا مجھ کو
وقت سے پیشتر لگا مجھ کو
اپنے سائے سے ڈر لگا مجھ کو
دشت بھی اپنا گھر لگا مجھ کو
بارہا حیلہ گر لگا لیکن
پھر وہ معتبر لگا مجھ کو
دیکھ لی میری جراَتِ پرواز
اب ذرا بال و پر لگا مجھ کو
ہر اسیرِ خیالِ مستقبل
حال سے بے خبر لگا مجھ کو
داد خواہی کہیں ہنر تو نہیں
بے ہنر باہنر لگا مجھ کو
روشنی اس قدر ہوئی مدھم
شمع کی لو سے ڈر لگا مجھ کو
ظلم کا بحرِ بے کراں اخگرؔ
خیر سے قطرہ بھر لگا مجھ کو
٭
No comments:
Post a Comment