عجب ہے تیرا تلوّن مزاج دیوانہ
کبھی تو روئے کبھی قہقہے لگانے لگے
جب اشک کیفیتِ سوزِ دل بتانے لگے
تو پھر فغاں سے مری آنچ کیوں نہ آنےلگے
وہ دل پہ تیرِ نظر کیوں نہ آزمانے لگے
خود اُٹھ کے درد نشانہ اگر بتانے لگے
بھٹک رہی ہے ابھی روح، جستجو میں تری
فنا ہوئے بھی مگر ہم کہاں ٹھکانے لگے
خیالِ کوچۂ جاناں جو ایک بار آیا
تو بار بار قدم اپنے ڈگمگانے لگے
عجب ہے تیرا تلوّن مزاج دیوانہ
کبھی تو روئے کبھی قہقہے لگانے لگے
جہاں کہیں سے وہ گزرے وہیں پہ ہم اخگرؔ
جبینِ شوق سے نقشِ وفا بنانے لگے
٭
No comments:
Post a Comment