کبھی مُسکرائے جو بھول کر، تو ہمارے اشک اُبل پڑے
جو بہار آئی سمجھ گئے کہ یہی خزاں کا پیام ہے
نہ یقینِ فرقتِ مستقل، نہ گُمان وصلِ دوام ہے
کوئی بات پھر بھی ضرور ہے، کہ شبوں کی نیند حرام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کو جام پہ جام ہے
یہی مے کدہ ہے تو ساقیا، اسے دور ہی سے سلام ہے
پس ناؤ نوش بھی ساقیا مری گردشوں کا نظام ہے
یہ لبوں تک آبھی سکے گا کیا، کہ ہنوز ہاتھ میں جام ہے
کبھی مُسکرائے جو بھول کر، تو ہمارے اشک اُبل پڑے
جو بہار آئی سمجھ گئے کہ یہی خزاں کا پیام ہے
میں ہنوز اپنی جبینِ شوق کے جائزے میں ہوں مُبتلا
مجھے کیا خبر کہ کہاں کہاں، مرا سجدہ کرنا حرام ہے
یہ جہاں ہے اخگرِؔ بے خبر، یہاں رنج و غم سے کہاں مفر
جو کلی کھلی وہ اُجڑ گئی، یہی گلستاں کا نظام ہے
٭
No comments:
Post a Comment