انہیں دیکھنے کی تھی آرزو، اسی آرزو میں جیا کیے
مگر اک جھلک ہی پہ چیخ اٹھے ہیں تمام لوگ مَرے مَرے
تری بات سن کے خموش ہیں نہ سمجھ کے ہم ہیں ڈرے ڈرے
ذرا ہوش اپنے سنبھل گئے تو جواب دیں گے کھرے کھرے
وہ لطیف لہجہ و گفتگو ، و نظیف جسم بھرے بھرے
ابھی ذہن میں ہیں تو اے اجل، ابھی چند روز پرے پرے
انہیں شوقِ دل شکنی تو ہے ابھی نازِ جاں طلبی نہیں
مجھے دیکھ کر دل و جاں بکف جو وہ کہہ رہے ہیں ارے ارے
انہیں دیکھنے کی تھی آرزو، اسی آرزو میں جیا کیے
مگر اک جھلک ہی پہ چیخ اٹھے ہیں تمام لوگ مَرے مَرے
سبھی داغ ہائے دل و جگر ہیں جفا کے نقشِ کہن مگر
مرے ذہن میں تو ابھی تلک ہیں تمام زخم ہرے ہرے
اک اساسِ اخگرؔ آرزو بھی وہی چراغ اُمّید ہے
جو تمام عمر جلا رہے کسی طاق میں دھرے دھرے
٭
No comments:
Post a Comment