ہائے سکونِ دل پئے عمرِ دوام رکھ دیا
مجموعۂ غزل کا نام “ماہِ تمام” رکھ دیا
یوں پسِ نقشۂ حیات ایک پیام رکھ دیا
مطلعِ صبح کے قریب منظرِ شام رکھ دیا
عالمِ جاں کنی میں یوں کیفِ مدام رکھ دیا
دیدۂ نیم باز میں خوابِ دوام رکھ دیا
اس کو بھی اعترافِ شوق تھا تو کسی قدر مگر
میں نے تو بابِ عشق میں عشق ِ تمام رکھ دیا
میں نے جو بے وفا کہا سب ہی نے اس کو جاں کہا
کوئی بدل نہیں سکا میں نے جو نام رکھ دیا
جانتے ہیں کہ کل تو کیا پل کی خبر نہیں، مگر
ہم نے اُٹھا کے کل پہ سب آج کا کام رکھ دیا
اخگرؔ نیم جاں تجھے مژدۂ عمرِ ناتمام
موت کا نام حاصلِ عمرِ تمام رکھ دیا
٭
No comments:
Post a Comment