آئینے میں جو میرا عکس نہیں
کوئی حائل ہے درمیان میں کیا
دخل اس کو مرے بیان میں کیا
کچھ اثر ہے مری زبان میں کیا
آئینے میں جو میرا عکس نہیں
کوئی حائل ہے درمیان میں کیا
سر پہ اب کوئی سائباں ہی نہیں
ورنہ دھوپ آئے سائبان میں کیا
پھر درِ جاں پہ اس نے دستک دی
رہ گیا ہے کچھ اس مکان میں کیا
دل ہے اپنا نہ غم نہ کوئی خوشی
کوئی چشمک ہے جسم و جان میں کیا
موت لائی حیاتِ نو کا پیام
رہ گئے ہم اِس امتحان میں کیا
اوّل آخر ہے عشق لیکن یہ
حسن ہی حسن درمیان میں کیا
اس کے دیکھے سے آئی جان میں جان
کچھ نہ تھا ورنہ میری جان میں کیا
کوئی شکوہ نہ آرزو اخگرؔ
احتیاط اس قدر بیان میں کیا
٭
No comments:
Post a Comment