زندگی اک طلسمِ نظر تھی مگر
دور تک اس کی اک اک ادا لے گئی
میرے خود دار دل کی انا لے گئی
وہ نظر ایک جنبش میں کیا لے گئی
زلفِ پیچاں سے خوشبو اُڑا لے گئی
ہائے کیا چیز بادِ صبا لے گئی
جنبشِ دستِ قاتل بھی کیا چیز تھی
قتل کرکے مجھے خوں بہا لے گئی
شدّتِ موجِ طوفانِ غم دیکھیے
ساحلوں سے سفینے بہا لے گئی
دل کو پتھرا گئی اس کی چشمِ کرم
سنگ دے کر مرا آئینہ لے گئی
سر پھری کس قدر تھی ہوائے جنوں
گل سے خوشبو تو سر سے ردا لے گئی
زندگی اک طلسمِ نظر تھی مگر
دور تک اس کی اک اک ادا لے گئی
وہ صداقت تھی اخگرؔ، سیاست نہ تھی
قافلہ جو سُوئے کربلا لے گئی
٭
No comments:
Post a Comment