یہ الگ بات کہ آواز کہاں تک پہنچے
“میرا پیغام محبّت ہے، جہاں تک پہنچے”
غم بتدریج اگر اشکِ رواں تک پہنچے
ہر نفس سلسلۂ آہ و فغاں تک پہنچے
تابشِ شمعِ یقیں حدِّ گُماں تک پہنچے
کاوشِ فکر و نظر سرِّ نہاں تک پہنچے
یہ الگ بات کہ آواز کہاں تک پہنچے
“میرا پیغام محبّت ہے، جہاں تک پہنچے”
عمر بھر خانہ خرابی ہی رہی دامن گیر
ہم کہاں حسرتِ تعمیرِ مکاں تک پہنچے
شرحِ غم اب لبِ اظہار سے ممکن ہی نہیں
خامشی معجزۂ لفظ و بیاں تک پہنچے
ہم شبِ وعدہ تصوّر میں افق کے اس پار
آپ کے ساتھ خدا جانے کہاں تک پہنچے
موت اک آیۂ رحمت ہے تو پھر موت کے ساتھ
اس کا پیغام نہیں، خود وہ یہاں تک پہنچے
یوں تلاشِ رہ میخانہ عبث ہے اخگرؔ
رند پہلے مرے قدموں کے نشاں تک پہنچے
٭
No comments:
Post a Comment