کبھی مستفیض ہوتے جو چمن کی دھوپ سے بھی
تو قفس میں سایۂ گل ہمیں ناگوار ہوتا
تری یاد سے جو غافل دلِ ہوشیار ہوتا
تو نہ بے قرار ہوتا نہ وہ دل شمار ہوتا
ذرا اور میرا قاتل جو ستم شعار ہوتا
تو وہ سوگوار ہوتا نہ میں شرمسار ہوتا
ترا جبر بے نیازی بھی نہ استوار ہوتا
مرے دل پہ صرف میرا اگر اختیار ہوتا
میں لوازماتِ خلوت میں اگر شمار ہوتا
تری بزمِ ناز میں بھی مرا انتظار ہوتا
اگر ایک بار تم کو ذرا ناگوار ہوتا
تو مری طرف سے شکوہ بھی نہ بار بار ہوتا
مری داستانِ الفت بڑی مختصر ہے لیکن
کہیں میں اور بے نیازِ غمِ روزگار ہوتا
کبھی مستفیض ہوتے جو چمن کی دھوپ سے بھی
تو قفس میں سایۂ گل ہمیں ناگوار ہوتا
بھلا کیسے نوبت آتی کبھی عرضِ مُدّعا کی
مجھے ان کی برہمی کا اگر اعتبار ہوتا
یہ وقارِ پائمالی بھی مرا نصیب کب تھا
مرے یار کی گلی میں جو مرا مزار ہوتا
مری پارسائی اخگرؔ تھی اسی کی چشم پوشی
وہ نظر سے کیوں پلاتا جو میں بادہ خوار ہوتا
٭
No comments:
Post a Comment