بہ غرورِ خودسر و خود نگر، بہ فتورِ فتنہ و شر بھی ہے
یہی مُشتِ خاک بشر بھی ہے، وہ بشر کہ عرش بسر بھی ہے
فقط اعتقادِ نظر نہیں، مجھے اعتبارِ نظر بھی ہے
کہ پسِ کمالِ حجابِ شب ہی جمالِ نورِ سحر بھی ہے
جو تری نگاہ میں ہے دوئی، تجھے اس کی کوئی خبر بھی ہے
کہ یہ دردِ دل کا سبب بھی ہے، یہی وجہِ زخمِ جگر بھی ہے
مجھے موت آئی تو موت نے بھی دیا پیامِ حیاتِ نو
مجھے موت سے تو مفر نہ تھا، کہیں زندگی سے مفر بھی ہے
کوئی رت کہیں تری صبح کو مری شامِ غم سے بدل نہ دے
کہ ذرا تجھے بھی پتا چلے، مری شامِ غم کی سحر بھی ہے
کمی رہ گئی ہے تباہیِ دلِ زار میں، نہ کوئی کسر
مگر اخگرؔ اس کی نگاہ میں کمی رہ گئی ہے کسر بھی ہے
٭
No comments:
Post a Comment