کسبِ کمالِ ضبطِ غم، خاک نہ ہم چھپا سکے
راکھ تو جل کے ہوگئے، لب نہ اگرہلا سکے
منعمِ سرفرازیِ سجدۂ ناتمام تھے
سنگِ درِ حبیب سے سر ہی نہ ہم اُٹھا سکے
صرف شعور ہی نہیں، ذہن بھی کوئی چیز ہے
“تم نے ہمیں بھُلا دیا، ہم نہ تمھیں بھُلا سکے”
غیرتِ مہر و بدر، وہ ایک نظر ہے جو نظر
سینۂ تنگ و تار میں ،شمعِ یقیں جلا سکے
شرطِ شکستگیِ دل، عُذرِ جفا سے بڑھ کے تھی
چوٹ پہ چوٹ خود لگی، وہ نہ اگر لگاسکے
اخگرؔ ِ مُبتلا، اسے رشکِ صبا کہیں گے سب
گُلشنِ جاں میں جو کوئی، دل کی کلی کھلاسکے
٭
No comments:
Post a Comment