چہرہ اس کا بھولا بھالا ہم کو اچھا لگتا ہے
لہجہ اس کا دھیما دھیما ہم کو اچھا لگتاہے
صحرا میں بھی گھر ہی جیسا کچھ سنّاٹا تھا لیکن
اپنا گھر ہی سَونا سَونا ہم کو اچھا لگتا ہے
اُن کو ہماری رسوائی سے کیوں لگتا ہے اتنا ڈر
جتنا ان کے نام کا چرچا ہم کو اچھا لگتا ہے
اِک اُمّید ہمارے دل میں باقی ہے صد شکر ہنوز
طاق میں مُدّھم ایک دیا سا ہم کو اچھّا لگتا ہے
ہم سے کیِا ہے اخگرؔ اس نے سب سے بُرا ، برتاؤ مگر
اس کو کہیں سب اچھا اچھا، ہم کو اچھا لگتا ہے
٭
No comments:
Post a Comment