جو سراپا غزل ہیں میری غزل
گُنگُنائیں تو کیا کیا جائے
وہ نہ آئیں تو کیا کیا جائے
آکے جائیں تو کیا کیا جائے
جو سراپا غزل ہیں میری غزل
گُنگُنائیں تو کیا کیا جائے
سرِمحفل وہ دیکھ کر مُجھ کو
مُسکرائیں تو کیا کیا جائے
دل میں آئے ہیں سو طرح کے خیال
وہ نہ آئیں تو کیا کیا جائے
راہِ اُلفت میں جب قدم اپنے
اُٹھ نہ پائیں تو کیا کیا جائے
وہ بجُھا کر چَراغِ ہائے اُمّید
دل جلائیں تو کیا کیا جائے
نیند آنکھوں سے اُڑ گئی پھر بھی
خواب آئیں تو کیا کیا جائے
وہ بھی دیوانہ وار اخگرؔ کو
آزمائیں تو کیا کیا جائے
٭
No comments:
Post a Comment