ظرفِ حجابِ عشق ہی وجہِ نمودِ حسن تھا
جلوے تمام دیدہ و دل میں سماکے رہ گئے
محوِ کمالِ آرزو دل کو بنا کے رہ گئے
خرمنِ جاں میں شوق کی آگ لگا کے رہ گئے
ضبطِ فغاں نے زخمِ دل داغِ وفا بنادیا
حوصلے میرے گریۂ رنگیں ادا کے رہ گئے
ظرفِ حجابِ عشق ہی وجہِ نمودِ حسن تھا
جلوے تمام دیدہ و دل میں سماکے رہ گئے
پردۂ بے خودی میں تھے زائرِ کائنات ہم
پردۂ بے خودی اُٹھا ،ہوش میں آکے رہ گئے
زخم لگا کے جب انہِیں مرہمِ جاں نہیں ملا
پھر وہ کچھ اور زخم پر زخم لگا کے رہ گئے
جبر ہی اختیار تھا، آپ کی بزمِ ناز میں
پی گئے آنسوؤں کو ،ہم دل کو دبا کے رہ گئے
اخگرؔ نامراد کی جانِ حزیں نکل گئی
آپ دُعا کے واسطے ہاتھ اُٹھا کے رہ گئے
٭
No comments:
Post a Comment