قدم بھی دل نے خیالوں کی کہکشاں کے لیے
قیامِ قافلۂ یادِ رفتگاں کے لیے
ہمیں کلی کے تبسّم نے کردیا مجبور
بھری بہار میں اندیشۂ خزاں کے لیے
نہیں کے ساتھ ہی گنجائشیں بھی کتنی تھیں
جفا شعار کے طرزِ ادا میں ہاں کے لیے
تمہیں کہیں کوئی مرہم نہیں ملا، نہ سہی
نمک ہی لاؤ مرے زخمِ خوں چکاں کے لیے
ہمارے سر پہ تو سایہ نہیں رہا لیکن
وہ جن کو دھوپ ملی، سر پہ سائباں کے لیے
وہ کچھ نہ کچھ ورقِ دل پہ روز لکھتا ہے
ہنوز تشنہ تکمیل داستاں کے لیے
تڑپ تڑپ کے مرے ہیں نہ جانے کتنے پرند
قفس کے سایۂ گل میں بھی آشیاں کے لیے
نگاہِ ناز تو اُٹھے گی دفعتاً اخگرؔ
کچھ اہتمام کرو، مرگِ ناگہاں کے لیے
٭
No comments:
Post a Comment