درونِ شہر درندوں کا کام ہی کیا ہے
یہ دیکھیے کہ یہاں کوئی آدمی کیا ہے
میں ان سے کیسے کہوں وجہِ خامشی کیا ہے
کہ بات دل میں نہ اُترے تو بات ہی کیا ہے
زباں ہے آ پ کی نشتر تو بات ہی کیا ہے
بتائیے کہ کبھی ہم نے آہ کی، کیا ہے
درونِ شہر درندوں کا کام ہی کیا ہے
یہ دیکھیے کہ یہاں کوئی آدمی کیا ہے
بتائیے تو سہی، وجہِ برہمی کیا ہے
سُخن طراز بہت میری خامشی کیا ہے
بجا کہ غُنچہ و گل کے ادا شناس ہیں ہم
ہمارا نظمِ گُلستاں میں دخل کیا ہے
پیامِ زیست تو پیغامِ مرگ ہے لیکن
پیامِ موت بھی پیغامِ زندگی کیا ہے
مآلِ ترکِ تعلّق کا منتظر ہوں میں
تو راہِ و رسم ابھی ان سے واقعی کیا ہے
بُہت بُری ہے مگر شیخ جی یہ فرمائیں
کبھی جناب نے کوئی شراب پی کیا ہے
عجیب شخص ہے اخگرؔ یہ جانتا ہی نہیں
کہ جس پہ پیار نہ آئے وہ برہمی کیا ہے
٭
No comments:
Post a Comment