عشوۂ ترکِ جفا کرتے ہو، کیا کرتے ہو
درد کو حد سے سِوا کرتے ہو، کیا کرتے ہو
میری توہین ہو، توہین کے قابل ہوں میں
تم تو توہینِ وفا کرتے ہو، کیا کرتے ہو
نہیں انکار اگر بس میں تو خاموش رہو
صاف اقرار کیا کرتے ہو ، کیا کرتے ہو
شیشۂ دل ہے کوئی وعدۂ فردا تو نہیں
کیوں اسے توڑ دیا کرتے ہو ، کیا کرتے ہو
دیدہ زیبی میں قیامت ہے جڑاؤ پائل
تم قیامت ہی بپا کرتے ہو، کیا کرتے ہو
خود ہی آغوشِ محبّت میں وہ آئے اخگرؔ
اور کہتے رہے، کیا کرتے ہو،کیا کرتے ہو
٭
No comments:
Post a Comment