فریب اپنی نظر کا ہے ، یا نظامِ عالم بدل رہا ہے
چراغ اندھیرے اگل رہے ہیں، گلوں سے گلزار جل رہا ہے
یہ روبرو کون آگیا ہے، کہ جذبِ دل نطق آزما ہے
زباں سے کہتا ہوں میں ھوالحق، مگر انا الحق نکل رہا ہے
جب اس کی بے مہریِ مسلسل سے خوگرِ غم ہوا مرا دل
تو فرطِ لطفُ وکرم سے ظالم ،غموں کی دنیا بدل رہا ہے
بجھی تمنّاؤں سے تو بہتر ،ہے اک چراغِ امّید پیہم
تھکے سواروں سے لاکھ بہتر ، وہ ایک پیدل جو چل رہا ہے
بہ ضبطِ گریہ مرے وہ آنسو، جو خشک آنکھوں میں گم ہیں اخگرؔ
ان آنسوؤں کے ہر ایک قطرے میں اک سمندر اُبل رہا ہے
٭
No comments:
Post a Comment