سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی
سلام و کلام: حرفِ تشکّر
میرے پہلے مجموعہِ کلام “چراغاں' کے پہلے ایڈیشن کی پذیرائی جس انداز میں ہوئی، وہ میرے لیے ایک اعزاز کے مترادف تھا۔ پھر اس کے دوسرے ایڈِیشن میں جناب محشر بدایونی مرحوم، اور جناب راغب مراد آبادی کے منظوم اور پروفیسر حمایت علی شاعر اور محترم احمد ندیم قاسمی کے منثور تأثرات کی شمولیت نے اس کے وقار کو بڑھادیا۔ ساتھ ہی عزیزم پروفیسر اوج کمال کی فکر انگیز جدّت اور جناب رشید کی حُسن کاری نے اس ایڈیشن کو ایک بالکل نئے انداز کا قابلِ دید بلکہ قابلِ غور اور معنی آفریں سرورق مہیّا کرکے کتاب کو اور زیادہ دیدہ زیب بنادیا تھا۔
اس کے بعد گذشتہ تین سال سے میرے چند مخلص احباب و اعزاء کا بربنائے محبّت اور کچھ میری صحت کے مدّ نظر متواتر یہ مطالبہ رہا کہ میرا دوسرا مجموعہ کلام جلد از جلد شائع ہوجانا چاہیے۔ چنانچہ، یہ مجموعہ غزلیات، “خیاباں” دراصل انہی حضرات کی فرمائش کا نتیجہ ہے۔ گو اس میں شک نہیں کہ چراغاں کی پذیرائی کا بھی اس میں خاصا دخل ہے۔ اس کے علاوہ، میری شریکِ حیات اور میرے بچوّں کی خواہش کا احترام بھی مقصود ہے۔
فنِ شاعری ہو، یا فنِ نثر نگاری، فکر و نظر کی دنیا میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ نت نئے مناظر اور نئے نئے زاویے اور گوشے متواتر نمایاں ہوتے اور دعوتِ نظّارہ و فکر دیتے رہتے ہیں۔ چنانچہ، گذشتہ افکار کو نئے انداز سے موجودہ عہد اور واقعات کی مطابقت سے ترقّی دینے کی کوشش، ایک فکری اجتہاد کی صورت ولی دکنی سے لے کر آج تک مُسلسل جاری ہے۔ میں نے بھی اپنی بساط بھر اسی تسلسل میں شرکت کی جُرأت کی ہے۔ میں نے بھی اپنے سے پہلے کے اور اپنے معاصرین تک کے افکارو خیال سے اپنے طرزِ اظہار کے مطابق استفادہ و اجتہاد کیا ہے۔ تاہم، مجھے اب تک اپنی شاعری کے بارے میں کوئی قابلِ رشک تصوّر قائم کرنے کی ہمّت نہیں ہوئی۔ اور نہ شاید کبھی ہو، بلکہ خدا نہ کرے کہ کبھی کسی قسم کی خوش فہمی لاحق ہو۔ میں نہ کسی خاص جدّت کا مُدّعی ہوں، اور نہ کسی خاص فلسفے کا دعویدار۔ البتّہ میں ایک طالب علم و فن اپنی نظر میں ہوں۔ اور تا دمِ آخر طالب علم ہی رہوں گا۔ انشااللہ۔
میں ان تمام صاحبانِ بصیرت، اربابِ دانش اور اساتذہ کا جن سے میں نے ملیح آباد، بھوپال، لکھنئو، کراچی، لندن، اور نیویارک میں ذہنی تربیت اور فکری روشنی حاصل کی، شکر گُزار ہوں۔ میں ان تمام دوستوں اور ادبی حلقوں کے نمائندوں، بزرگوں اور ساتھیوں کا بھی جو شعر و ادب کی خدمات میں میرے شانہ بشانہ رہے، مجھ پر ہمدردانہ رویہ کے ساتھ تنقید کی، اور تحمّل مزاجی سے پیش آئے، ان سب کا ممنون ہوں۔
میں جناب ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب، سابق شیخ الجامعہ کراچی کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں، جنہوں نے “خیاباں” پر اپنے بیش بہا تأثرات سے مجھ کو نوازا، اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ میں جناب ڈاکٹر محمد علی صدّیقی صاحب کا بے حد ممنون ہوں، کہ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود “خیاباں” پر تبصرہ فرما کر اپنے بے لوث خلوص سے مجھے مستفیض کیا۔ میں پروفیسر ریاض صدّیقی صاحب کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنے بیش قیمت خیالات “خیاباں' کے لیے قلمبند کیے، اور ناچیز کی عزّت افزائی فرمائی۔ میں پروفیسر محسن احسان کا بھی بے حد ممنون ہوں، کہ انہوں نے بڑے خلوص سے دلنشین انداز میں “خیاباں” پر اظہارِ خیال فرمایا۔
محترم راغب مرادآبادی، برادرم حمایت علی شاعر، برادرم نکہت بریلوی، اور عزیزم پروفیسر اوجِ کمال نے “خیاباں” کی ترتیب و تدوین بلکہ اشاعت کے ہر مرحلے پر گراں قدر مشوروں سے مجھے نوازا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ان حضرات کا متواتر اور پُرخلوص تعاون مجھے نصیب نہ ہوتا تو نیویارک میں رہائش کے سبب میرے اس مجموعہ کلام “خیاباں” کا کراچی سے شائع ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ ہوتا۔
۔”خیاباں” کا ٹائٹل بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹسٹ، برادرم “موجد” کی فنّی مہارت اور خلوص اور عزیزم پروفیسر اوجِ کمال کی فکر انگیز جدّت اور میرے لیے ان کی دلی مُحبّت کا منہ بولتا شاہکار ہی نہیں، خود “خیاباں” کے ٹائٹل کے متعلّق میرے ذہنی تصوّر کا مُجسِّمہ بھی ہے۔ میں ان کے لیے شکریہ کے ساتھ ان گنت دلی دعاؤں کا ہدیہ پیش کرتا ہوں۔
میں نے اپنے عظیم والدین [مرحومین] سے حق گوئی اور حق شناسی کا ورثہ حاصل کیا ہے۔ اور میں معترف ہوں کہ سعیدہ خاتون جو 1950ء سے میری رفیقہِ حیات ہیں اور دکھ سکھ کے ہر موڑ پر مجھے ان کا تعاون حاصل رہا ہے، اور ان کے بطن سے ہماری ماشااللہ گیارہ اولادیں ہیں، انہوں نے میرے والدِ محترم اور دوسرے اہلِ خانہ کی بھی جیسی خدمت کی ہے، اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ ایسی باوفا شریکِ حیات بلاشبہ ایسی نعمت ہے، جس کے لیے میں رب العزّت کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ اُن کے والدین نے بھی ہمیشہ میرے اور میرے جملہ متعلّقین کے لیے شفقت اور تحمّل کا روّیہ رکھا، ان کی شفقت سے بھی ہم دونوں اب محروم ہوچکے ہیں۔ [ انّا للہِ، و انّا الیہِ راجعون]۔
میں اپنے اس ناچیز مجموعہِ “خیاباں” کو سعیدہ اور ان کے والدین مرحوم کے ناموں سے منسوب کرنے کا شرف ازراہِ اعترافِ محبّت و اظہارِ تشکّر حاصل کررہا ہوں۔
نیو یارک
دسمبر 4, 1997ء
سیّد محمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی
صدر حلقۂ فن و ادب، شمالی امریکہ 2003 ء
٭
No comments:
Post a Comment