پیہم بہ نگاہِ ناز اُسے کب تیر چلانا آئے ہے
خود زد پہ دلِ آزار طلب بن بن کے نشانہ آئے ہے
اُلفت میں بہ فیضِ شدّتِ غم ایسا بھی زمانہ آئے ہے
جب عیش و طرب کی شمعوں کو اشکوں سے بُجھانا آئے ہے
پندارِ نگاہِ شوق و طلب اب تیرا خدا ہی حافظ ہے
دل جلوہ طلب ہے اور انہیں جلوہ بھی دکھانا آئے ہے
ہم نے تو بقیدِ ہوش و خرد، تکمیلِ جنوں خود ہی کی تھی
اور آپ سمجھ بیٹھے کہ، ہمیں دیوانہ بنانا آئے ہے
کہتے ہیں مسیحا تم کو مگر، تم زخم کا بھرنا کیا جانو
تم کو تو فقط ان آنکھوں سے اِک زخم لگانا آئے ہے
خود ذات میں اپنی دریا ہے وہ موج کہ جس کو طوفاں سے
کشتی کو بچاکر ساحل کے سینے سے لگانا آئے ہے
وہ باعثِ لُطفِ دید بھی ہے، صد رشک مہ و خورشید بھی ہے
جس ایک نظر کو شمعِ یقیں سینے میں جلانا آئے ہے
دامانِ و گریباں چاک کیے خود ہم نے جنوں مِیں اے اخگرؔ
اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں دیوانہ بنانا آئے ہے
٭
No comments:
Post a Comment