ہر اِک مُسرّت کی تہہ میں اخگرؔ کوئی نہ کوئی اَلَم نہاں ہے
قبائے گُل بھی نچوڑتا ہوں، تو اشکِ شبنم نکل رہا ہے
نہ رنگِ رُخ ہی دھُواں دھُواں ہے، نہ کوئی آنسو نکل رہا ہے
پتہ مگر کربِ آرزو کا میرے تبسّم سے چل رہا ہے
تیرے اشاروں کی روشنی میں زمانہ کروٹ بدل رہا ہے
کہیں کلی کوئی کھِل رہی ہے، تو کوئی گلزار جل رہا ہے
بس اِک تِرے دھیان کی ہوا ہے بس اِک تِری لو لگی ہوئی ہے
عجیب عالم ہے اپنے دل کا، نہ بُجھ رہا ہے، نہ جل رہا ہے
عجب طرح کی یہ کشمکش ہے، عجب ہے یہ انتظارِ پیہم
نہ خود وہ تشریف لا رہے ہیں، نہ موت کا وقت ٹل رہا ہے
قدم قدم پر ہے ایک آہٹ، نفس نفس پر ہے ایک لرزش
مُجھے یہ محسوس ہورہا ہے، کوئی دبے پاؤں چل رہا ہے
نہ آندھیاں اپنا سر اُٹھائیں، نہ پاؤں موسم کے ڈگمگائیں
ابھی ذرا روک لو نگاہیں، ابھی زمانہ سنبھل رہا ہے
ہر اِک مُسرّت کی تہہ میں اخگرؔ کوئی نہ کوئی اَلَم نہاں ہے
قبائے گُل بھی نچوڑتا ہوں، تو اشکِ شبنم نکل رہا ہے
٭
No comments:
Post a Comment