مُحبّت میں یہ کیا انداز برتا جائے ہے مُجھ سے
نہ دیکھا جائے ہے مجھ کو، نہ بولا جائے ہے مُجھ سے
یہ بارِ ناتوانی ہے کہ ذوقِ وضعداری ہے
کسی صُورت تِرے در سے نہ اُٹھّا جائے ہے مجُھ سے
سرِ محفل عجب ہے رسمِ آدابِ محبّت بھی
وہ میرے روُبرُو ہیں اور نہ دیکھا جائے ہے مُجھ سے
نہیں ہوتا طلب کی رہگزر میں ہم قدم کوئی
گریزاں خود مِرا سایہ بھی ہوتا جائے ہے مُجھ سے
نگاہِ ساقیِ میخانہ کی گردش قیامت ہے
کہاں ایسے میں پیمانہ اُٹھایا جائے ہے مجھ سے
جُدا وہ ہورہے ہیں، اور یہ محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے زندگی کا ساتھ چھُوٹا جائے ہے مُجھ سے
مزاجِ حُسنِ بے پروا سمجھ میں آئے کیا اخگرؔ
خود اپنے دل کا عالم بھی نہ سمجھا جائے ہے مُجھ سے
٭
No comments:
Post a Comment