آغازِ جنوں کارِ ہُنر کس کے لیے ہے
جب سنگ نہیں ہے تو یہ سرکس کے لیے ہے
تیرا تو کسی سے بھی نہ تھا عہدِ محبّت
آنکھوں میں نمی سی یہ مگر کس کے لیے ہے
دیکھا ہے تو کوئی بھی نہیں خلوتِ جاںمیں
پھر میری انا سینہ سپر کس کے لیے ہے
زلفوں کو وہ چہرے پہ بکھیرے رہے شب بھر
یہ بھی نہ کھُلا رنگِ سحر کس کے لیے ہے
دیوانے تو سب ہیں یہ کسی نے نہیں سوچا
صحرا بھی ضروری تھا تو گھر کس کے لیے ہے
آنکھوں میں چلے آتے ہیں کیوں اشک مسلسل
تنہا یہ ستاروں کا سفر کس کے لیے ہے
دل تھامے ہوئے سوچ رہا ہوں یہی اخگرؔ
جو آگ لگادے وہ نظر کس کے لیےہے
٭
No comments:
Post a Comment