دل تڑپتا ہے ملامت کا سزاوار بھی ہے
یعنی تیر آپ کا اِس پار بھی اُس پار بھی ہے
سامنے طُور بھی ہے اور رسن و دار بھی ہے
دعوتِ دید بھی ہے، جُرأتِ دیدار بھی ہے
آپ تو رشکِ مسیحا ہیں زمانے کے لیے
آپ کے پاس علاجِ دلِ بیمار بھی ہے
اس طرف سایہء دیوار نہیں ہے تو نہ ہو
اُس طرف دیکھیے سُورج پسِ دیوار بھی ہے
ہم پہ یہ راز تِرے فتنہء قامت سے کھُلا
کچھ تِرا فتنہء محشر سے سروکار بھی ہے
تیری رفتار سے کیوں ہو نہ قیامت برپا
تیرے ہمراہ تو خود وقت کی رفتار بھی ہے
خشمگیں ہیں نگہء مست کے تیور اخگرؔ
کیا مِری چشمِ تمنّا لبِ اظہار بھی ہے
٭
No comments:
Post a Comment