یہ واقعات بھی دیکھے ہیں، چشمِ بینا نے
دلوں میں دشت ہیں آباد، گھر میں ویرانے
اب اور حشر کا عالم ہو کیا خُدا جانے
یہ انتہا ہے کہ اپنے ہوئے ہیں بیگانے
مِرے سکوتِ محبّت کو کوئی کیا جانے
لکھّے ہیں اہلِ قلم نے ہزار افسانے
نہ میکدے کی ضرورت نہ چشمِ ساقی کی
خود اپنے دل کے لہو سے بھرے ہیں پیمانے
نہ گَردِ راہ، نہ چہرے، نہ منزلوں کے نشاں
ہم اپنی رَو مِیں کہاں آگئے خُدا جانے
زبانِ شمع سے یہ راز پُوچھ لے کوئی
خود آئے ہیں کہ بُلائے گئے ہیں پروانے
تمہارے شہر میں بس یہ شناخت ہے میری
اِک اجنبی جسے جانے کوئی نہ پہچانے
ہُجُومِ یاس میں روشن ہے اِک چَراغ اُمّید
یہ اِک چَراغ بھی کب تک جلے خُدا جانے
وہ گھر مِرا کہ مِری جشن گاہ تھا اخگرؔ
اسی کو دیکھ کے یاد آرہے ہیں ویرانے
٭
No comments:
Post a Comment