جب صبا تک کلی کی بات گئی
ساری رنگینیء حیات گئی
ایک دل کیا گیا محبّت میں
جیسے پہلوُ سے کائنات گئی
ایک لمحے کو اس کی یاد آئی
ایک لمحے میں ساری رات گئی
سُوئے دل جو ابھی اُٹھی بھی نہیں
دُور تک اُس نظر کی بات گئی
موسمِ فکرِ عاقبت آیا
لیجیے خواہشِ نجات گئی
آگئے وہ رگِ گُلو سے قریب
جستجوئے صفات و ذات گئی
اب مِرے آنسوؤں کا چرچا ہے
شہرتِ دجلہ و فرات گئی
بات تو اُن سے مختصر سی تھی
بات اتنی بڑھی کہ بات گئی
گَرد بھی مِل سکی نہ اے اخگرؔ
کِس طرف عُمرِ بے ثبات گئی
٭
No comments:
Post a Comment