میرا ہی رازِ عشق نہ افشا کرے کوئی
محفل میں دوسروں کو بھی دیکھا کرے کوئی
نظروں کو بے سبب نہ اُٹھایا کرے کوئی
ماحول کا مزاج بھی سمجھا کرے کوئی
جلوہ خود آئے کھنچ کے سرِ بزم سامنے
ایسی نگاہِ شوق تو پیدا کرے کوئی
دنیا کے غم کو کیوں نہ ہنسی میں اُڑائیے
یہ تیرا غم نہیں کہ گوارا کرے کوئی
آنا تمہارا موت سے پہلے محال ہے
بے موت مر نہ جائے تو پھر کیا کرے کوئی
رنگِ جمال بن کے ٹھہر جائے عکسِ رُخ
آئینہ اس طرح تو نہ دیکھا کرے کوئی
ایک ایک سے تو خود ہی کہا ماجرائے دل
اَب سوچتے ہیں اور چرچا کرے کوئی
دِل جل کے خاک سوزِ تمنّا سے ہوچُکا
اب کیا رہا جو ترکِ تمنّا کرے کوئی
اخگرؔ دیا ہے درد مسیحا نے لادوا
کس کی مجال ہے کہ مداوا کرے کوئی
٭
No comments:
Post a Comment